امن کی پکار
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اذان
بھائیوں اور بہنو!
السّلام علیکم!
اذان کے لغوی معنی ہیں:
کان میں خبر یا آواز پہنچانا
نماز کے واسطے بلانے کی صدا
بانگ
بھائیو اور بہنو!اذان کے لفظ نے ایک اسم کی صورت اختیار اور یہ نماز کی اطلاع دینے کے لئے مختص ہو چکا ہے یہ کہنا صحیح ہو گا کہ نماز کا حصہ بن گیا ہے۔ مثلاً: جیسے وضو کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی اسی طرح اذان کے بغیر نماز باجماعت نہیں ہو سکتی۔
بھائیو اور بہنو! اللہ تعالیٰ رحمان بھی ہیں اوررحیم بھی۔ اللہ پاک چاہتے ہیں کہ بندے ہر وقت اللہ کی رحمت سے مستفید ہوتے رہیں اور آخرت کی زندگی کے لئے اللہ کی رحمتوں کا توشہ اکٹھا کرتے رہیں اور پھر جنت میں اس توشے سے اللہ کی ان نعمتوں سے ہمیشہ کے لئے سرفراز ہوتے رہیں کہ جو کسی آنکھ نے نہ دیکھیں، نہ کسی کان نے سنی اور نہ ہی کسی کے تصور میںآسکتی ہیں۔
بھائیو اور بہنو! اگر ہم اذان اور تکبیر کا تجزیہ کریں تو نظر آئے گا
کہ اذان اور تکبیر میں پورے کا پورا دین اسلام پنہاں ہے۔
بھائیو اور بہنو! آئیے پہلے اذان کے کلمات کا اجمالی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بھائیو اور بہنو!اذان کے پہلے کلمات ہیں:
اللہ اکبر،اللہ اکبر اللہ اکبر،اللہ اکبر
اللہ سب سے بڑا ہے
بھائیو اور بہنو!
* اللہ اکبر کا اقرار کرنے سے بندہ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اگر اللہ سب سے بڑا ہے اور باقی ذاتیں اس (اللہ) سے چھوٹی ہیں تو اللہ خالق ہے اور باقی تمام ذاتیں مخلوق ہیں،
* اللہ خالق ہے تو تمام مخلوقات کو بنانے والی اللہ کی ذات ہے،
* اللہ خالق ہے تو اللہ کی کتاب قرآن اللہ کا کلام ہے،
* قرآن اللہ کا کلام ہے تو اس میں وہ سب کچھ محیط ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کی زندگی کے لئے ضروری ہے،
* اگر قرآن ہر اس پہلو پر محیط ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کے لئے ضروری ہے تو اس کتاب میں کچھ شک نہیں کہ اس میں کوئی کمی بیشی ہو یعنی با ضابطہ مکمل کتاب ہے،
حضرت انس بن مالکؓ اور حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ مدنی دور میں لوگ نماز کے اوقات اپنے اپنے اندازے سے متعین کرتے تھے۔
ایک روز مشورہ کیا گیا۔ کسی نے یہود کے بوق کی تجویز پیش کی اور کسی نے نصاریٰ کے ناقوص کی تجویز پیش کی۔ مگر حضرت عمرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ ایک شخص کو مقررکیا جائے جو نماز کے اوقات میں بلند آواز سے لوگوں کو بلائے۔ چنانچہ اسی پر فیصلہ ہوا اور رسول اکرم ﷺ نے اس کام پر حضرت بلالﷺ کو مقرر فرما دیا۔
حضرت بلالؓ نماز کے اوقات میں بلند آواز میں “الصلواۃ جامعۃ” کہا کرتے تھے۔ یعنی “اے لوگو! نماز با جماعت تیار ہے”۔ لیکن بعد میں حضرت عبداللہ بن زید نے خواب میں اذان کے مروجہ الفاظ سنے اور رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلالؓ کو انہی الفاظ کے ساتھ اذان دینے کا حکم دیا اور اللہ کی وحی بھی اس کی تائید میں آ گئی۔
بھائیو اور بہنو! اذان کے اگلے کلمات ہیں:
اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
بھائیو اور بہنو!
* جب ایک مؤمن نے اللہ کی ذات یکتا کا اقرار کر لیا تو اس کے لئے لازم ٹہرا کہ وہ اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کی ذات عالی موجود ہے۔
* یہ قدرت کا اصول ہے کہ کسی بات کی گواہی بغیر دیکھے نہیں دی جا سکتی۔ اللہ کی ذات غیب میں ہے اس لئے انسانی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی۔ تاہم! اللہ تعالیٰ نے گواہی دینے کا یہ ضابطہ بھی طے کر دیا ہے کہ اگر کسی بات کا آنکھ سے مشاہدہ نہ کیا جا سکے تو قرائن (Circumstantial Evidence)کے تحت بھی گواہی قابل قبول ہے۔دنیا میں ان مقدمات کا فیصلہ جن کی چشم دید گواہی نہیں ملتی تو ان کا فیصلہ Circumstantial Evidence کے تحت کیا جا تا ہے۔
* مختصر یہ کہ کائنات کی تخلیق اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ چونکہ یہ کسی انسان کی تخلیق نہیں ہے اس لئے کائنات کی ہر شئے کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور ہر شئے میں جو جزیات (Properties) موجود ہیں وہ بھی اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ کے تابع ہیں۔ اس لئے ہر قسم کی عبادت کی سزاوار اللہ تعالیٰ کی ذات یکتا ہی ہے۔
بھائیو اور بہنو!اذان کے اگلے کلمات ہیں:
اشھد ان محمد رسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں
بھائیو اور بہنو!
* قرآن و حدیث کی روشنی میں انسان اللہ کا خلیفہ ہے۔ اللہ کی ذات غیب میں ہے۔ اللہ کو بنی نوع انسان کو اپنا پیغام پہنچانا ہے۔
* اللہ بنی نوع انسان میں سے ایک انسان کو منتخب کر لیتے ہیں اور فرشتہ کی وساطت اس شخص کو پیغام بھیجتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کو پہنچا دیا جائے۔ یہ شخص اللہ کا پیغمبر کہلاتا ہے جسے نبی اور رسول بنی کہا جاتا ہے۔
* حضرت محمد ابن عبد اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔ روایات کے مطابق کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث کئے گئے ہیں۔
بھائیو اور بہنو!
* کلمہ طیبہ: لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ میں صرف محمد ابن عبداللہ ﷺکی رسالت کا اقرار نہیں کیا جاتا بلکہ تمام انبیاء کرام کی رسالت کی اقرار کیا جاتا ہے وہ اس وجہ سے کہ محمد ابن عبداللہ ﷺ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس لئے جب محمد ابن عبداللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کیا جاتا ہے تو تمام انبیائے کرام کی رسالت کی اقرار کیا جاتا ہے۔
* مؤمن نے جب یہ اقرار کر لیا کہ اللہ کی ذات یکتا ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا نزول خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ پر ہوا تو یہ اس بات کی گواہی دینے کے مترادف ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
* جب ایک مؤمن قرآن پاک پڑھتا ہے اور اس کی تعلیمات کہ پرکھتا ہے کہ آیا تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ ﷺ کی سوانح حیات قرآن پاک جو کہ اللہ کا کلام ہے کی تعلیمات کے مطابق ہے۔جب تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ آپ ﷺ کی ہر ادا قرآن پاک کی تعلیم کا مظہر ہے تو مؤمن اس بات کی گواہی دینے میں حق بجانب ہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور اللہ کے آخری نبی ہیں۔
* جب مؤمن خاتم الانبیاء ﷺ کی رسالت پر ایمان لے آیا اور قرآن کو اللہ کا کلام تسلیم کیا اور آپ ﷺ کی زندگی کو قرآن پاک کی تعلیمات کا مظہر دیکھا تو اس نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ حدیث قرآن پاک کی تفسیر ہے۔ حدیث کا قرآن پاک کی کی تفسیر ہونے کی گواہی قرآن پاک میں ہے:
ترجمہ سورۃ النجم آیت نمبر 5 – 1
قسم ہے تارے کی جب گرے۔ لا بہکا نہیں تموارا رفیق اور نہ بے راہ چلا۔ ج
اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے۔ ط یہ تو حکم ہے بھیجا ہوا۔ لا اس کو سکھلایا قوتوں والے نے۔ لا زور آور نے۔
بھائیو اور بہنو! دین اسلام قرآن اور حدیث کا مجموعہ ہے۔ اس لئے جب مؤمن نے اللہ اور اللہ کے رسول کی گواہی دی تو گویا اذان کے ان دو کلمات میں پورے دین اسلام کو سمو دیا گیا۔
بھائیو اور بہنو! اذان کے اگلے کلمات ہیں:
حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ
نماز ادا کرنے کے لئے آؤ
بھائیو اور بہنو!
* مؤمنین کو نماز ادا کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے،
* نماز میں قرآن پاک کی تلاوت کی جاتی ہے،
* جب مؤمن نماز ادا کرتے ہوئے قرآت پاک کی تلاوت کرتا ہے تو وہ روزمرہ کی زندگی گزارنے سے متعلق اللہ کی ہدایات سیکھتا ہے،
* قرآن پاک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس لئے مؤمن زندگی کے ہر پہلو سے متعلق علم کا حصول کرتا ہے،
بھائیو اور بہنو! جب مؤمنین کو نماز ادا کرنے کی دعوت دی جاتی ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرآن پاک کی ہدایات کو زندگی کا مظہر بنانے کے لئے قرآن پاک کی تعلیمات پر عمل کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔
بھائیو اور بہنو! اذان کے اگلے کلمات ہیں:
حی علی الفلاح حی علی الفلاح
نماز میں کامیابی ہے
بھائیو اور بہنو!
* انسان کی زندگی تین ادوار پر محیط ہے:
۔ ازل سے پیدائش تک: یہ اس دنیا میں آنے کے لئے انتظار کا زمانہ ہے،
۔ پیدائش سے موت تک: یہ امتحان کا زمانہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں کامیابی کے لئے امتحان پاس کیا جائے،
۔ موت سے ابد تک: یہ وہ زمانہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔
بھائیو اور بہنو!
* انسان آخری دو ادوار میں کامیابی کا متمنی ہوتا ہے،
* مؤمنین کو بتلایا جاتا ہے کہ دونوں ادوار میں کامیابی کی کنجی نماز ہے جس کی ادائیگی کے لئے دعوت دی گئی ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد نماز کو قائم کیا جائے۔ جب نماز کو قائم کیا جائے گا تو وہ دنیا و آخرت میں کامیابی دلوائے گی۔ اس کا ذکر قرآن پاک میں کردیا گیا ہے:
ترجمہ سورۃالعنکبوت آیت نمبر45 – 44
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ نے بنائے آسمان اور زمین جیسے چاہیں ط اس میں نشانی ہے یقین لانے والوں کے لئے۔
تو پڑھ جو اتری تیری طرف کتاب اور قائم کر نماز ط بیشک نماز روکتی ہے
بے حیائی اور بری بات سے ط اور اللہ کی یاد ہے سب سے بڑی ط اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرنے ہو۔
بھائیو اور بہنو! بے حیائی سے بچنا اور بری بات سے رکنا ہی دین اسلام کی روح ہے۔
بھائیو اور بہنو! اذان کے اگلے کلمات جو فجر کی اذان کے وقت پڑھے جاتے ہیں لیکن ان کا متن ہر نماز پر لاگو ہوتا ہے:
الصلٰوۃ خیر من النوم الصلٰوۃ خیر من النوم
نماز نیند سے بہتر ہے
بھائیو اور بہنو!* نیند، سستی اور کاہلی نماز کے بروقت نہ ادا کرنے کی سزاوار ہوتی ہے۔ اس لئے مؤمنین کو خبردار کر دیا گیا ہے کہ اگر بروقت نماز ادا نہ کیا گئی اور نماز کو قائم نہ کیا گیا تو دنیا و آخرت کی زندگی میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔
بھائیو اور بہنو! اذان کے اگلے کلمات ہیں:
اللہ اکبر اللہ اکبر
اللہ سب سے بڑا ہے
لا الہ الا اللہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
بھائیو اور بہنو! اذان کو تمام کرنے سے پیشتر ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کی عظمت و بڑائی اور ان کی ذات یکتا ہونے کی یاد دہانی کروائی جاتی ہے۔
بھائیو اور بہنو! اللہ کی توفیق سے اذان کا مندرجہ بالا تجزیہ کے پیش نظر اذان کی اہمیت اور قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چند کلمات میں پورے دین اسلام کو سمو دیا ہے۔
بھائیو اور بہنو!اذان کے کلمات ہیں:
اللہ اکبر،اللہ اکبر اللہ اکبر،اللہ اکبر
اللہ سب سے بڑا ہے
اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
اشھد ان محمد رسول اللہ اشھد ان محمد رسول اللہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں
حی علی الصلوٰۃ حی علی الصلوٰۃ
نماز ادا کرنے کے لئے آؤ
حی علی الفلاح حی علی الفلاح
نماز میں کامیابی ہے
الصلٰوۃ خیر من النوم الصلٰوۃ خیر من النوم
نماز نیند سے بہتر ہے
اللہ اکبر اللہ اکبر
اللہ سب سے بڑا ہے
لا الہ الا اللہ
اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں
اذان کے آداب
بھائیو اور بہنو! مندرجہ بالا حقائق کے مد نظر چونکہ اذان دین اسلام کا خلاصہ ہے اس لئے جب موذن اذان دے رہا ہو تو مؤ منین پر واجب ہے کہ وہ اذان کے آداب کو بجا لائیں:
* اگر باتیں ہو رہی ہوں تو خاموش ہو جائیں اور اذان کو توجہ سے سنیں۔
* جب موذن اذان کے کلمات ادا کر کے سانس لینے کے لئے رکے تو مؤمنین کو اذان کا جواب دینا چاہیے یعنی ان کلمات کو جن کو ادا کر کے موذن سانس لینے کے لئے رکا ہے تو انہی کلمات کو دہرایا جائے۔
* اذان کے تمام ہونے پر دعائے وسیلہ پڑھنی چاہیے۔
اللھم رب ھذاہ الدوعوۃ التامۃ والصلواۃ ا لقائمۃ ا ت محمدا ن الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمودا ن الذی وعد تہ انک لا تخلف المعیاد۔
اے اللہ! اس دعوت کامل اور کھڑی ہونے والی نماز کے مالک تو محمد ﷺ کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے وعدہ فرمایا ہے۔ بیشک تو اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔
بھائیو اور بہنو! اذان کے بعد دعائے وسیلہ کے مانگنے کی ترغیب قرآن پاک میں دی گئی ہے:
ترجمہ سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 79 – 78
قائم رکھ نماز کو سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور قرآن پڑھنا فجر کا ط بیشک قرآن پڑھنا فجر کا ہوتا ہے روبرو۔ اور کچھ رات جاگتا رہ قرآن کے ساتھ یہ زیادتی ہے تیرے لئے ق قریب ہے کہ کھڑا کردے تجھ کو تیرا رب مقام محمود میں۔
اذان کی برکات
ھائیو اور بہنو! الحمد للہ! اذان چونکہ دین اسلام کا مخفف ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس میں برکات کو سمو دیا ہے۔ احادیث پاک میں اذان کی برکات سے مستفید ہونے کی ترغیب آئی ہے:
دعاؤں کا قبول ہونا
بھائیو اور بہنو! حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص کسی مصیبت یا سختی میں گرفتار ہو اسے چاہیے کہ اذان کے وقت کا منتظر رہے اور اذان کا جواب دینے کے بعد اپنی حاجت اور کشائش کی دعا کرے اس کی دعا اللہ کے فضل و کرم سے ضرور قبول ہوگی۔ اگر اللہ توفیق دے تو اپنی حاجت کی دعا مانگنے سے پیشتر مندرجہ ذیل دعا مانگ لے:
اے اللہ! اس سچی دعوت حق (اذان) اور کلمۂ تقویٰ (کلمہ شہادت) کے مالک تو ہم کو اسی (کلمۂ تقویٰ) پر زندہ رکھیو اور اسی پر موت دیجیو اور اسی پر (حشر کے دن) اٹھا ئیو اور ہمیں زندگی اور موت دونوں حالتوں میں بہترین اہل توحید میں شامل کر دے۔
غم کا علاج
بھائیو اور بہنو! حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہجو شخص کسی رنج و غم میں مبتلا ہو اس کے کان میں اذان دینے سے اس کا رنج و غم دورہو جاتا ہے:
حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے غمگین دیکھ کر فرمایا: ابن ابی طالب! میں تمیہں غمگین دیکھ رہا ہوں۔
میں نے عرض کی: جی ہاں!
آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے گھر والوں میں سے کسی سے کہو کہ تمہارے کان میں اذان دے۔ کیونکہ یہ غم کا علاج ہے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: کہ میں نے یہ عمل کیا تو میرا غم دور ہو گیا۔ اسی طرح اس حدیث کے تمام راویوں نے اسے آزما کر دیکھا تو سب نے اسے مجرب پایا۔
لب لباب
بھائیو اور بہنو! مختصر یہ کہ اذان کی برکات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اذان کی برکات سے ہی اس دنیا کا نظام قائم ہے کیونکہ چوبیس گھنٹہ کے ہر لمحہ میں اذان دی جا رہی ہے۔
وہ کس طرح؟
بھائیو اور بہنو! آّپ جانتے ہیں کہ دن ورات میں پانچ وقت کی نماز سورج کی منزلوں پر متعین ہے۔ بھائیو اور بہنو! آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ بیک وقت کرہ ارض میں سورج کی منزلیں مختلف ہیں۔ مثلاً: امریکہ میں فجر کی نماز کا وقت ہو گا تو یورپ میں ظہر کی نماز کا وقت ہو گا اور پاکستان میں عشأ کی نماز کا وقت ہو گا۔ ہر نماز سے پہلے اذان دینا ضروری ہے۔ اس بنیاد پر آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کرہ ارض میں بیک وقت فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشأ کی نمازوں کا وقت ہوتا رہتا ہے اور چونکہ ہر نمازسے پہلے اذان دینا ضروری ہے اس لئے کرہ ارض میں ہر لمحہ اذان ہوتی رہتی ہے۔
بھائیو اور بہنو! حدیث پاک کا یہ مفہوم بھی ہے کہ اگر ایک مؤمن کو اکیلے نماز ادا کرنے کی ضرورت پیش آجائے تو اے اذان اور تکبیر پڑھ لینی چاہیے۔ جو کہ جماعت کی نقل ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مؤمنین کو اذان کی
اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین